Tuesday 24 September 2013

ویلڈن شہباز شریف --------------------------------.فیصلہ کر کے رانجھا اور مہینوال کی طرح امر ہو جائیں......تفصیل پڑھیں۔


  • ویلڈن شہباز شریف
    کالم نگار | خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

    وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جناح ہسپتال لاہور میں گذشتہ دنوں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی غفلت کے باعث سانپ کئے ڈسے شخص کی ہلاکت پر ایکشن لیتے ہوئے ہسپتال کے MS سمیت کئی ڈاکٹروں اور ماتحت عملے کے ارکان کو معطل کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ان تمام متعلقہ … عملے کے خلاف کارروائی کو بھرپور طریقے سے اور تیزی کے ساتھ مکمل کرنے کے بھی احکامات جاری کئے ہیں کیونکہ ہسپتال میں سانپ کے کاٹے سے بچاؤ کے انجکشن دستیاب تھے مگر باوجود اس حقیقت کے مریض کو یہ دوائی نہ دی جا سکی۔حسب بالا خبر یا اطلاع پر دو تین باتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ (اول) شہباز شریف انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے بارے میں سخت رویہ رکھتے ہیں۔ (دوئم) جناح ہسپتال ہمیشہ بڑے بڑے سکینڈلوں کی زد میں رہا ہے۔ (سوئم) انتظامیہ کی گرفت کبھی بھی ہسپتال کے معاملات پر مضبوط نہیں رہی۔میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق جب تک ڈاکٹر زاہد پرویز جناح ہسپتال کے MS رہے معاملات نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاتے رہے۔ مگر نہ جانے کس عقلمند کے مشورے پر زاہد پرویز کو ٹرانسفر کرکے میو ہسپتال بھجوا دیا گیا۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جناح ہسپتال میں آج تک جتنے بھی انتظامی آفیسرز آئے تقریباً سب سفارش اور رشوت کے زور پر آئے۔ کاش آپ نے کبھی اس تہہ خانے کا چکر لگایا ہو جہاں فارماسسٹ لڑکے اور لڑکیاں دائیں بائیں سے بے نیاز خوش گپیوں اور ذاتی مصروفیات میں مگن پائی جاتی ہیں۔ سینئر ڈاکٹرز اور پروفیسر آؤٹ آف کنٹرول ہیں۔ دفتری اوقات میں ہسپتال میں موجود ہوتے بلکہ ذاتی اور پرائیویٹ کلینکوں اور ہسپتالوں میں پائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ بڑوں اور چھوٹوں کی ذاتی انڈسٹینڈنگ سے ہو رہا ہے۔ MS کے اندر اتنی جرات نہیں کہ وہ کسی سینئر یا جونیئر سے بازپرس کرے۔ پرنسپل آفس اور جناح ہسپتال کی بلڈنگوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ پرنسپل آفس کی بلڈنگ کو ہر دور میں خوبصورت اور پرکشش بنایا گیا دوسری طرف جناح ہسپتال کی بلڈنگ میں داخل ہوکر نارمل انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ عجیب سی بدبو سارے ہسپتال میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

    میں نے جناح ہسپتال کے ایک پرائیویٹ روم میں میں نے چار دن گزارے۔ کیا دیکھا‘ کیا مشاہدہ کیا بیان کئے دیتا ہوں۔ میں نے مین لیبارٹری میں ایک خونخوار بلی کو بچوں سمیت دیکھا جو کئی دنوں سے یہاں ڈیرا ڈالے ہوئے تھے اور قریب آنے والے مریضوں پر جھپٹ رہی تھے اسے یہاں سے نکالنے والا کوئی نہ تھا۔ میں نے پرائیویٹ کمروں میں اتنے موٹے موٹے چوہے دندناتے ہوئے پائے جنہیں دیکھ کر ہسپتال کی انتظامیہ کا سیاپا کرنے کو دل چاہا۔ میں نے ہسپتال کے پرائیویٹ رومز میں بھی وہ عجیب سی بدبو محسوس کی جسے پورے ہسپتال میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میں نے بعض پرائیویٹ کمروں میں سٹاف اور ان کے عزیزوں کو قابض پایا اور وہ بھی فری ہیں۔ ہسپتال میں سپلائی ہونے والے کھانے پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پورے ہسپتال میں صفائی کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔البتہ ایک بات تو طے ہے کہ اگر دوائی موجود ہوتی بھی اور مریض پر استعمال کی بھی جاتی تو شاید مریض پھر بھی نہ بچتا کیونکہ میرا رونا یہی رہا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں وہ دوائیاں استعمال کروائی جا رہی ہیں جو غیر معیاری اور ناقص ہیں اور فائدہ کی بجائے نقصان پہنچا رہی ہیں۔لگتا ہے کہ محکمہ صحت کے کرتا دھرتا لوگ غیر معیاری اور متبادل دوائیوں کی طرف توجہ نہیں دے رہے جبکہ کچھ عرصہ پہلے ہی ہم متبادل اور گھٹیا دوائیوں کے استعمال کا نتیجہ بھگت چکے ہوئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں متبادل اور غیر معیاری ادویات کا استعمال کسی بھی وقت ایک بہت بڑا دھماکہ کر سکتا ہے۔ میں نے اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ وزیراعلیٰ اور سیکرٹری صحت پنجاب کو صورتحال کی سنگینی سے مطلع کرنے کی۔ جناب شہباز شریف کو ایک مخلصانہ مشورہ دینے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اگر آپ کا محکمہ صحت سرکاری ہسپتالوں میں اوریجنل اور معیاری دوائیاں نہیں دے سکتا توکم از کم غیر معیاری ادویات دینا تو بند کرا دیں۔




نوازشریف اور من موہن سنگھ میں ملاقات صبح کے ناشتہ پر ہو گی۔ سچ ہے لاہوری لاہوری ہی رہتا چاہے جہاں بھی ہو۔ اسکی زندہ دلی اور خوش خوراکی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اور اگر یہ لاہوری کشمیری بھی ہو تو پھر سونے پہ سہاگہ ہوتا ہے۔ اب ذرا سوچئے تو نیویارک میں صبح کا ناشتہ ہو اور مہمان بھی پنجابی سکھ اور پنجابی کشمیری ہوں تو میز پر کیا سہانا منظر ہو گا۔ ہمارے تو سوچ سوچ کر منہ میں پانی آ رہا ہے۔ حلوہ پوڑی۔ دہی۔ چنے۔ ہریسہ۔ بونگ پائے۔ لسی۔ مکھن۔ پراٹھے۔ نان اور آخر میں کشمیری چائے۔ بلے بلے مزہ ہی آ جائے اور پھر


جس کو دیکھا خمار میں دیکھا



جس کو چاہا خمار میں چاہا


والی اسی خماری کیفیت میں یہ دونوں اپنے آپس کے اختلافات کو طے کرنے کیلئے کوئی خماری فیصلہ بھی کر لیں۔ تو اس کا خمار سارے پاکستان اور ہندوستان پر چھا جائیگا اور نفرت و گولہ و بارود کی جگہ امن اور محبت کی پھوار برسے گی۔ کشمیر اور پانی کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان زندگی اور موت کی جنگ بنا ہوا ہے۔ اگر دونوں رہنما تاریخ میں زندہ رہنا چاہئے کروڑوں لوگوں کو ایٹم بم کا ایندھن بننے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں صبر اور تحمل سے یہ دونوں مسائل نہایت تدبر اور حکمت کے ساتھ حل کرنا ہوں گے۔ ورنہ ایسی مزیدار ناشتہ ملاقات بھی کسی کام نہ آ سکے گی۔ ان دونوں رہنماﺅں کا تعلق عشق و مستی کی مٹی میں گوندھی پنجاب کی سرزمین سے ہے۔ جہاں کے لہلہاتے گنگناتے کھیت۔ سُر بکھیرتے دریاﺅں میں آج بھی ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کی محبت کی صدا سنائی دیتی ہے۔ اگر موقع مل رہا ہے تو بجائے ”کیدو“ بننے کیلئے یہ دونوں رہنما پاکستان اور بھارت میں حقیقی امن کے قیام کا فیصلہ کر کے رانجھا اور مہینوال کی طرح امر ہو جائیں۔

No comments:

Post a Comment

please add your valueable suggestions.